Thursday, 27 September 2012

Jawanon Ko Meri Aah e Sehar De

جوانوں کو مری آہ سحر دے




جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہيں بچوں کو بال و پر دے
خدايا ! آرزو ميری يہی ہے
مرا نور بصيرت عام کر دے


Khird Se..

خرد سے راہرو روشن بصر ہے



خرد سے راہرو روشن بصر ہے
خرد کيا ہے ، چراغ رہ گزر ہے
درون خانہ ہنگامے ہيں کيا کيا
چراغ رہ گزر کو کيا خبر ہے


Chaman Main Rakht..

چمن ميں رخت گل شبنم سے تر ہے



چمن ميں رخت گل شبنم سے تر ہے
سمن ہے ، سبزہ ہے ، باد سحر ہے
مگر ہنگامہ ہو سکتا نہيں گرم
يہاں کا لالہ بے سوز جگر ہے


Muhabbat Ka Junoon Baki Nahi Hai

محبت کا جنوں باقی نہيں ہے




محبت کا جنوں باقی نہيں ہے
مسلمانوں ميں خوں باقی نہيں ہے
صفيں کج ، دل پريشاں ، سجدہ بے ذوق
کہ جذب اندروں باقی نہيں ہے


Khudi Ke Zor Se..

خودی کے زور سے دنيا پہ چھا جا



خودی کے زور سے دنيا پہ چھا جا
مقام رنگ و بو کا راز پا جا
برنگ بحر ساحل آشنا رہ
کف ساحل سے دامن کھينچتا جا


Tera Johar Hai..

تراجوہر ہے نوری ، پاک ہے تو



ترا جوہر ہے نوری ، پاک ہے تو
فروغ ديدۂ افلاک ہے تو
ترے صيد زبوں افرشتہ و حور
کہ شاہين شہ لولاک ہے تو


Tere Seenay Main Dum Hai..

ترے سينے ميں دم ہے ، دل نہيں ہے



ترے سينے ميں دم ہے ، دل نہيں ہے
ترا دم گرمی محفل نہيں ہے
گزر جا عقل سے آگے کہ يہ نور
چراغ راہ ہے ، منزل نہيں ہے


Sawar Naka o Mahmal Nahi..

سوار ناقہ و محمل نہيں ميں



سوار ناقہ و محمل نہيں ميں
نشان جادہ ہوں ، منزل نہيں ميں
مری تقدير ہے خاشاک سوزی
فقط بجلی ہوں ميں ، حاصل نہيں ميں


Wo Mera Ronik Mehfil..

وہ ميرا رونق محفل کہاں ہے



وہ ميرا رونق محفل کہاں ہے
مری بجلی ، مرا حاصل کہاں ہے
مقام اس کا ہے دل کی خلوتوں ميں
خدا جانے مقام دل کہاں ہے


Jamal Ishq o Masti..

جمال عشق و مستی نے نوازی



جمال عشق و مستی نے نوازی
جلال عشق و مستی بے نيازی
کمال عشق و مستی ظرف حيدر
زوال عشق و مستی حرف رازی


Khudi Ki Jalwaton Main..

خودی کی جلوتوں ميں مصطفائی



خودی کي جلوتوں ميں مصطفائی
خودی کی خلوتوں ميں کبريائی
زمين و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زد ميں ہے ساری خدائی


Nigah Ulji Hui Hai..

نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو ميں



نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو ميں
خرد کھوئی گئی ہے چار سو ميں
نہ چھوڑ اے دل فغان صبح گاہی
ميںاللہ ھواماں شايد ملے


Na Momin Hai Na Momin..

نہ مومن ہے نہ مومن کی اميری



نہ مومن ہے نہ مومن کی اميری
رہا صوفی ، گئي روشن ضميری
خدا سے پھر وہی قلب و نظر مانگ
نہيں ممکن اميری بے فقيری


Tera Andesha AFLaaki..

ترا انديشہ افلاکی نہيں ہے



ترا انديشہ افلاکی نہيں ہے
تری پرواز لولاکی نہيں ہے
يہ مانا اصل شاہينی ہے تيری
تری آنکھوں ميں بے باکی نہيں ہے


Her ik Zarray Main Hai..

ہر اک ذرے ميں ہے شايد مکيں دل



ہر اک ذرے ميں ہے شايد مکيں دل
اسی جلوت ميں ہے خلوت نشيں دل
اسير دوش و فردا ہے و ليکن
غلام گردش دوراں نہيں دل


Koi Dekhay To Meri..

کوئی ديکھے تو ميری نے نوازی



کوئی ديکھے تو ميری نے نوازی
نفس ہندی ، مقام نغمہ تازی
نگہ آلودہ انداز افرنگ
طبيعت غزنوی ، قسمت ايازی


Arab Ke Soz Main..

عرب کے سوز ميں ساز عجم ہے



عرب کے سوز ميں ساز عجم ہے
حرم کا راز توحيد امم ہے
تہی وحدت سے ہے انديشہ غرب
کہ تہذيب فرنگی بے حرم ہے


Yaqeen Misl e Khaleel..

يقيں ، مثل خليل آتش نشينی



يقيں ، مثل خليل آتش نشينی
يقيں ، اللہ مستی ، خود گزينی
سن ، اے تہذيب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بتر ہے بے يقينی


Khudi Ki Khalwaton Main..

خودی کی خلوتوں ميں گم رہا ميں



خودی کی خلوتوں ميں گم رہا ميں
خدا کے سامنے گويا نہ تھا ميں
نہ ديکھا آنکھ اٹھا کر جلوہ دوست
قيامت ميں تماشا بن گيا ميں


Preshan Karobar Aashnai

پريشاں کاروبار آشنائی



پريشاں کاروبار آشنائی
پريشاں تر مری رنگيں نوائی
کبھی ميں ڈھونڈتا ہوں لذت وصل
خوش آتا ہے کبھی سوز جدائی


Makani Hun Ke Azad..

مکانی ہوں کہ آزاد مکاں ہوں



مکانی ہوں کہ آزاد مکاں ہوں
جہاں بيں ہوں کہ خود سارا جہاں ہوں
وہ اپنی لامکانی ميں رہيں مست
مجھے اتنا بتا ديں ميں کہاں ہوں


Zulam Behr Main Kho Kr..

ظلام بحر ميں کھو کر سنبھل جا



ظلام بحر ميں کھو کر سنبھل جا
تڑپ جا ، پيچ کھا کھا کر بدل جا
نہيں ساحل تری قسمت ميں اے موج
ابھر کر جس طرف چاہے نکل جا


Rah o Rasm..

رہ و رسم حرم نا محرمانہ


رہ و رسم حرم نا محرمانہ
کليسا کی ادا سوداگرانہ
تبرک ہے مرا پيراہن چاک
نہيں اہل جنوں کا يہ زمانہ


Andaaz e Bayan Garchay Bohat Shokh Nahi Hai



قطعہ

انداز بياں گرچہ بہت شوخ نہيں ہے


انداز بياں گرچہ بہت شوخ نہيں ہے
شايد کہ اتر جائے ترے دل ميں مری بات
يا وسعت افلاک ميں تکبير مسلسل
يا خاک کے آغوش ميں تسبيح و مناجات
وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست
يہ مذہب ملا و جمادات و نباتات


Shaoor o Hosh o Khard Ka..

شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجيب


شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجيب
مقام شوق ميں ہيں سب دل و نظر کے رقيب
ميں جانتا ہوں جماعت کا حشر کيا ہو گا
مسائل نظری ميں الجھ گيا ہے خطيب
اگرچہ ميرے نشيمن کا کر رہا ہے طواف
مری نوا ميں نہيں طائر چمن کا نصيب
سنا ہے ميں نے سخن رس ہے ترک عثمانی
سنائے کون اسے اقبال کا يہ شعر غريب
سمجھ رہے ہيں وہ يورپ کو ہم جوار اپنا
ستارے جن کے نشيمن سے ہيں زيادہ قريب


Kamal Josh e Junoon Main Raha..

کمال جوش جنوں ميں رہا ميں گرم طواف


کمال جوش جنوں ميں رہا ميں گرم طواف
خدا کا شکر ، سلامت رہا حرم کا غلاف
يہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے ليے
کہ يک زباں ہيں فقيہان شہر ميرے خلاف
تڑپ رہا ہے فلاطوں ميان غيب و حضور
ازل سے اہل خرد کا مقام ہے اعراف
ترے ضمير پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
سرور و سوز ميں ناپائدار ہے ، ورنہ
مے فرنگ کا تہ جرعہ بھی نہيں ناصاف


Faqr Ke Hain Mojzaat..

فقر کے ہيں معجزات تاج و سرير و سپاہ


فقر کے ہيں معجزات تاج و سرير و سپاہ
فقر ہے ميروں کا مير ، فقر ہے شاہوں کا شاہ
علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نگاہ
علم فقيہ و حکيم ، فقر مسيح و کليم
علم ہے جويائے راہ ، فقر ہے دانائے راہ
فقر مقام نظر ، علم مقام خبر
فقر ميں مستی ثواب ، علم ميں مستی گناہ
علم کا 'موجود' اور ، فقر کا 'موجود' اور
اشھد ان لا الہ' اشھد ان لا الہ
چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تيغ خودی
ايک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کار سپاہ
دل اگر اس خاک ميں زندہ و بيدار ہو
تيری نگہ توڑ دے آئنۂ مہروماہ


Thaa Jahan Madrssa..

تھا جہاں مدرسہ شيری و شاہنشاہی


تھا جہاں مدرسہ شيری و شاہنشاہی
آج ان خانقہوں ميں ہے فقط روباہی
نظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں ميں
وہ شبانی کہ ہے تمہيد کليم اللہی
لذت نغمہ کہاں مرغ خوش الحاں کے ليے
آہ ، اس باغ ميں کرتا ہے نفس کوتاہی
ايک سرمستی و حيرت ہے سراپا تاريک
ايک سرمستی و حيرت ہے تمام آگاہی
صفت برق چمکتا ہے مرا فکر بلند
کہ بھٹکتے نہ پھريں ظلمت شب ميں راہی


Hai Yaad Mujhe Nukta..

ہے ياد مجھے نکتہ سلمان خوش آہنگ


ہے ياد مجھے نکتہ سلمان خوش آہنگ
دنيا نہيں مردان جفاکش کے ليے تنگ
چيتے کا جگر چاہيے ، شاہيں کا تجسس
جی سکتے ہيں بے روشنی دانش و فرہنگ
کر بلبل و طاؤس کی تقليد سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے ، طاؤس فقط رنگ

سلمان: مسعود سور سليمان - غزنوی دور کانامور ايرانی شاعر جو
غالبا ً لاہور ميں پيدا ہوا


Kho Na Ja Is..

کھو نہ جا اس سحروشام ميں اے صاحب ہوش


کھو نہ جا اس سحروشام ميں اے صاحب ہوش
اک جہاں اور بھی ہے جس ميں نہ فردا ہے نہ دوش
کس کو معلوم ہے ہنگامہ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و ميخانہ ہيں مدت سے خموش
ميں نے پايا ہے اسے اشک سحر گاہی ميں
جس در ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش
نئی تہذيب تکلف کے سوا کچھ بھی نہيں
چہرہ روشن ہو تو کيا حاجت گلگونہ فروش
صاحب ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے
گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش


Her Ik Muqam Se..

ہر اک مقام سے آگے گزر گيا مہ نو


ہر اک مقام سے آگے گزر گيا مہ نو
کمال کس کو ميسر ہوا ہے بے تگ و دٔو!
نفس کے زور سے وہ غنچہ وا ہوا بھی تو کيا
جسے نصيب نہيں آفتاب کا پرتو
نگاہ پاک ہے تيری تو پاک ہے دل بھی
کہ دل کو حق نے کيا ہے نگاہ کا پيرو
پنپ سکا نہ خياباں ميں لالہ دل سوز
کہ ساز گار نہيں يہ جہان گندم و جو
رہے نہ ايبک و غوری کے معرکے باقی
ہميشہ تازہ و شيريں ہے نغمہ خسرو


Meri Nawa Se Huway Zinda..

مری نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامی


مری نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامی
ديا ہے ميں نے انھيں ذوق آتش آشامی
حرم کے پاس کوئی اعجمی ہے زمزمہ سنج
کہ تار تار ہوئے جامہ ہائے احرامی
حقيقت ابدی ہے مقام شبيری
بدلتے رہتے ہيں انداز کوفی و شامی
مجھے يہ ڈر ہے مقامر ہيں پختہ کار بہت
نہ رنگ لائے کہيں تيرے ہاتھ کی خامی
عجب نہيں کہ مسلماں کو پھر عطا کر ديں
شکوہ سنجر و فقر جنيد و بسطامی
قبائے علم و ہنر لطف خاص ہے ، ورنہ
تری نگاہ ميں تھی ميری ناخوش اندامی


Garm Faghan Hai Jars..

گرم فغاں ہے جرس ، اٹھ کہ گيا قافلہ


گرم فغاں ہے جرس ، اٹھ کہ گيا قافلہ
وائے وہ رہرو کہ ہے منتظر راحلہ !
تيری طبيعت ہے اور ، تيرا زمانہ ہے اور
تيرے موافق نہيں خانقہی سلسلہ
دل ہو غلام خرد يا کہ امام خرد
سالک رہ ، ہوشيار! سخت ہے يہ مرحلہ
اس کی خودی ہے ابھی شام و سحر ميں اسير
گردش دوراں کا ہے جس کی زباں پر گلہ
تيرے نفس سے ہوئی آتش گل تيز تر
مرغ چمن! ہے يہی تيری نوا کا صلہ


Ki HAQ Se Frishton Ne..

کی حق سے فرشتوں نے اقبال کی غمازی


کی حق سے فرشتوں نے اقبال کی غمازی
گستاخ ہے ، کرتا ہے فطرت کی حنا بندی
خاکی ہے مگر اس کے انداز ہيں افلاکی
رومی ہے نہ شامی ہے ، کاشی نہ سمرقندی
سکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اس نے
آدم کو سکھاتا ہے آداب خداوندی


Ne Mohra Baqi..

نے مہرہ باقی ، نے مہرہ بازی


نے مہرہ باقی ، نے مہرہ بازی
جيتا ہے رومی ، ہارا ہے رازی
روشن ہے جام جمشيد اب تک
شاہی نہيں ہے بے شيشہ بازی
دل ہے مسلماں ميرا نہ تيرا
تو بھی نمازی ، ميں بھی نمازی!
ميں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے ميں ملا ہوں غازی
ترکی بھی شيريں ، تازی بھی شيريں
حرف محبت ترکی نہ تازی
آزر کا پيشہ خارا تراشی
کار خليلاں خارا گدازی
تو زندگی ہے ، پائندگی ہے
باقی ہے جو کچھ ، سب خاک بازی


Karen Ge Ahal e Nazar Taza..

کريں گے اہل نظر تازہ بستياں آباد


کريں گے اہل نظر تازہ بستياں آباد
مری نگاہ نہيں سوئے کوفہ و بغداد
يہ مدرسہ ، يہ جواں ، يہ سرور و رعنائی
انھی کے دم سے ہے ميخانہ فرنگ آباد
نہ فلسفی سے ، نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو
يہ دل کی موت ، وہ انديشہ و نظر کا فساد
فقيہ شہر کی تحقير! کيا مجال مری
مگر يہ بات کہ ميں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد
خريد سکتے ہيں دنيا ميں عشرت پرويز
خدا کی دين ہے سرمايہ غم فرہاد
کيے ہيں فاش رموز قلندری ميں نے
کہ فکر مدرسہ و خانقاہ ہو آزاد
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کليمی ہے کار بے بنياد


Fitrat Ne Na Bakhsha Mujhe..

فطرت نے نہ بخشا مجھے انديشہ چالاک


فطرت نے نہ بخشا مجھے انديشہ چالاک
رکھتی ہے مگر طاقت پرواز مری خاک
وہ خاک کہ ہے جس کا جنوں صيقل ادراک
وہ خاک کہ جبريل کی ہے جس سے قبا چاک
وہ خاک کہ پروائے نشيمن نہيں رکھتی
چنتی نہيں پہنائے چمن سے خس و خاشاک
اس خاک کو اللہ نے بخشے ہيں وہ آنسو
کرتی ہے چمک جن کی ستاروں کو عرق ناک


Na Takht o TaaJ Main..

نہ تخت و تاج ميں ، نے لشکر و سپاہ ميں ہے


نہ تخت و تاج ميں ، نے لشکر و سپاہ ميں ہے
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ ميں ہے
صنم کدہ ہے جہاں اور مرد حق ہے خليل
يہ نکتہ وہ ہے کہ پوشيدہ لاالہ ميں ہے
وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پيدا
يہ سنگ و خشت نہيں ، جو تری نگاہ ميں ہے
مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا
وہ مشت خاک ابھی آوارگان راہ ميں ہے
خبر ملی ہے خدايان بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہ گزر سيل بے پناہ ميں ہے
تلاش اس کی فضاؤں ميں کر نصيب اپنا
جہان تازہ مری آہ صبح گاہ ميں ہے
مرے کدو کو غنيمت سمجھ کہ بادہ ناب
نہ مدرسے ميں ہے باقی نہ خانقاہ ميں ہے


Yun Hath Aata Nahi..

يوں ہاتھ نہيں آتا وہ گوہر يک دانہ


يوں ہاتھ نہيں آتا وہ گوہر يک دانہ
يک رنگی و آزادی اے ہمت مردانہ
يا سنجر و طغرل کا آئين جہاں گيری
يا مرد قلندر کے انداز ملوکانہ
يا حيرت فارابی يا تاب و تب رومی
يا فکر حکيمانہ يا جذب کليمانہ
يا عقل کی روباہی يا عشق يد اللہی
يا حيلہ افرنگی يا حملہ ترکانہ
يا شرع مسلمانی يا دير کی دربانی
يا نعرہ مستانہ ، کعبہ ہو کہ بت خانہ
ميری ميں فقيری ميں ، شاہی ميں غلامی ميں
کچھ کام نہيں بنتا بے جرأت رندانہ


Huwa Na Zor Se Is Ke..

ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گريباں چاک


ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گريباں چاک
اگرچہ مغربيوں کا جنوں بھی تھا چالاک
مئے يقيں سے ضمير حيات ہے پرسوز
نصيب مدرسہ يا رب يہ آب آتش ناک
عروج آدم خاکی کے منتظر ہيں تمام
يہ کہکشاں ، يہ ستارے ، يہ نيلگوں افلاک
يہی زمانہ حاضر کی کائنات ہے کيا
دماغ روشن و دل تيرہ و نگہ بے باک
تو بے بصر ہو تو يہ مانع نگاہ بھی ہے
وگرنہ آگ ہے مومن ، جہاں خس و خاشاک
زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک
جہاں تمام ہے ميراث مرد مومن کی
ميرے کلام پہ حجت ہے نکتہ لولاک


Raha Na Halqa E Sufi Main...

رہا نہ حلقہ صوفی ميں سوز مشتاقی


رہا نہ حلقہ صوفی ميں سوز مشتاقی
فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی
خراب کوشک سلطان و خانقاہ فقير
فغاں کہ تخت و مصلی کمال زراقی
کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز
کتاب صوفی و ملا کی سادہ اوراقی
نہ چينی و عربی وہ ، نہ رومی و شامی
سما سکا نہ دو عالم ميں مرد آفاقی
مئے شبانہ کی مستی تو ہو چکی ، ليکن
کھٹک رہا ہے دلوں ميں کرشمہ ساقی
چمن ميں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کار ترياقی
عزيز تر ہے متاع امير و سلطاں سے
وہ شعر جس ميں ہو بجلی کا سوز و براقی


Hadsa Jo Abhi Perda e AFlaak..

حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک ميں ہے


حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک ميں ہے
عکس اس کا مرے آئينہ ادراک ميں ہے
نہ ستارے ميں ہے ، نے گردش افلاک ميں ہے
تيری تقدير مرے نالہ بے باک ميں ہے
يا مری آہ ميں کوئی شرر زندہ نہيں
يا ذرا نم ابھی تيرے خس و خاشاک ميں ہے
کيا عجب ميری نوا ہائے سحر گاہی سے
زندہ ہو جائے وہ آتش کہ تری خاک ميں ہے
توڑ ڈالے گی يہی خاک طلسم شب و روز
گرچہ الجھی ہوئی تقدير کے پيچاک ميں ہے


Maktubon Main Kaheen..

مکتبوں ميں کہيں رعنائی افکار بھی ہے؟


مکتبوں ميں کہيں رعنائی افکار بھی ہے؟
خانقاہوں ميں کہيں لذت اسرار بھی ہے؟
منزل راہرواں دور بھی ، دشوار بھی ہے
کوئی اس قافلے ميں قافلہ سالار بھی ہے؟
بڑھ کے خيبر سے ہے يہ معرکہ دين و وطن
اس زمانے ميں کوئی حيدر کرار بھی ہے؟
علم کی حد سے پرے ، بندہ مومن کے ليے
لذت شوق بھی ہے ، نعمت ديدار بھی ہے
پير ميخانہ يہ کہتا ہے کہ ايوان فرنگ
سست بنياد بھی ہے ، آئنہ ديوار بھی ہے


Khudi Ho ILm Se Mehkam..

خودی ہو علم سے محکم تو غيرت جبريل


خودی ہو علم سے محکم تو غيرت جبريل
اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافيل
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں ميں
کہ ميں اس آگ ميں ڈالا گيا ہوں مثل خليل
فريب خوردہ منزل ہے کارواں ورنہ
زيادہ راحت منزل سے ہے نشاط رحيل
نظر نہيں تو مرے حلقہ سخن ميں نہ بيٹھ
کہ نکتہ ہائے خودی ہيں مثال تيغ اصيل
مجھے وہ درس فرنگ آج ياد آتے ہيں
کہاں حضور کی لذت ، کہاں حجاب دليل!
اندھيری شب ہے ، جدا اپنے قافلے سے ہے تو
ترے ليے ہے مرا شعلہ نوا ، قنديل
غريب و سادہ و رنگيں ہے داستان حرم
نہايت اس کی حسين ، ابتدا ہے اسمعيل


Dhoond Raha Hai Frang..

ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عيش جہاں کا دوام

فرانس ميں لکھے گئے

ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عيش جہاں کا دوام


ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عيش جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام ، وائے تمنائے خام!
پير حرم نے کہا سن کے مری روئداد
پختہ ہے تيری فغاں ، اب نہ اسے دل ميں تھام
تھا ارنی گو کليم ، ميں ارنی گو نہيں
اس کو تقاضا روا ، مجھ پہ تقاضا حرام
گرچہ ہے افشائے راز ، اہل نظر کی فغاں
ہو نہيں سکتا کبھی شيوہ رندانہ عام
حلقہ صوفی ميں ذکر ، بے نم و بے سوز و ساز
ميں بھي رہا تشنہ کام ، تو بھی رہا تشنہ کام
عشق تری انتہا ، عشق مری انتہا
تو بھی ابھی ناتمام ، ميں بھی ابھی ناتمام
آہ کہ کھويا گيا تجھ سے فقيری کا راز
ورنہ ہے مال فقير سلطنت روم و شام


Sitaron Se Aagay Jahan Aur Bhi Hain

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہيں


ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہيں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہيں
تہی ، زندگی سے نہيں يہ فضائيں
يہاں سينکڑوں کارواں اور بھی ہيں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشياں اور بھی ہيں
اگر کھو گيا اک نشيمن تو کيا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہيں
تو شاہيں ہے ، پرواز ہے کام تيرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہيں
اسی روز و شب ميں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تيرے زمان و مکاں اور بھی ہيں
گئے دن کہ تنہا تھا ميں انجمن ميں
يہاں اب مرے رازداں اور بھی ہيں


Taza Phir Danish e Hazir...

تازہ پھر دانش حاضر نے کيا سحر قديم


تازہ پھر دانش حاضر نے کيا سحر قديم
گزر اس عہد ميں ممکن نہيں بے چوب کليم
عقل عيار ہے ، سو بھيس بنا ليتی ہے
عشق بے چارہ نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکيم
عيش منزل ہے غريبان محبت پہ حرام
سب مسافر ہيں ، بظاہر نظر آتے ہيں مقيم
ہے گراں سير غم راحلہ و زاد سے تو
کوہ و دريا سے گزر سکتے ہيں مانند نسيم
مرد درويش کا سرمايہ ہے آزادی و مرگ
ہے کسی اور کی خاطر يہ نصاب زر و سيم


Yeh Peeran e Kaleesa O Harm..

يہ پيران کليسا و حرم ، اے وائے مجبوری


يہ پيران کليسا و حرم ، اے وائے مجبوری
صلہ ان کی کدوی کاوش کا ہے سينوں کی بے نوری
يقيں پيدا کر اے ناداں! يقيں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درويشی ، کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
کبھی حيرت ، کبھی مستی ، کبھی آہ سحرگاہی
بدلتا ہے ہزاروں رنگ ميرا درد مہجوری
حد ادراک سے باہر ہيں باتيں عشق و مستی کی
سمجھ ميں اس قدر آيا کہ دل کی موت ہے ، دوری
وہ اپنے حسن کی مستی سے ہيں مجبور پيدائی
مری آنکھوں کی بينائی ميں ہيں اسباب مستوری
کوئی تقدير کی منطق سمجھ سکتا نہيں ورنہ
نہ تھے ترکان عثمانی سے کم ترکان تيموری
فقيران حرم کے ہاتھ اقبال آگيا کيونکر
ميسر ميرو سلطاں کو نہيں شاہين کافوری


Fitrat Ko Khard Ke Rubroo Kr

فطرت کو خرد کے روبرو کر


فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخير مقام رنگ و بو کر
تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے
کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر
تاروں کی فضا ہے بيکرانہ
تو بھی يہ مقام آرزو کر
عرياں ہيں ترے چمن کی حوريں
چاک گل و لالہ کو رفو کر
بے ذوق نہيں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا ، وہ تو کر


Na Ho Tughyan e Mushtaqi To..

نہ ہو طغيان مشتاقی تو ميں رہتا نہيں باقی


نہ ہو طغيان مشتاقی تو ميں رہتا نہيں باقی
کہ ميری زندگی کيا ہے ، يہی طغيان مشتاقی
مجھے فطرت نوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل ميں ہے شايد کوئی درد آشنا باقی
وہ آتش آج بھی تيرا نشيمن پھونک سکتی ہے
طلب صادق نہ ہو تيری تو پھر کيا شکوۂ ساقی
نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی براقی
دلوں ميں ولولے آفاق گيری کے نہيں اٹھتے
نگاہوں ميں اگر پيدا نہ ہو انداز آفاقی
خزاں ميں بھی کب آسکتا تھا ميں صياد کی زد ميں
مری غماز تھی شاخ نشيمن کی کم اوراقی
الٹ جائيں گی تدبيريں ، بدل جائيں گی تقديريں
حقيقت ہے ، نہيں ميرے تخيل کی يہ خلاقی


Mujhe Aah o Faghan..

مجھے آہ و فغان نيم شب کا پھر پيام آيا


مجھے آہ و فغان نيم شب کا پھر پيام آيا
تھم اے رہرو کہ شايد پھر کوئی مشکل مقام آيا
ذرا تقدير کی گہرائيوں ميں ڈوب جا تو بھی
کہ اس جنگاہ سے ميں بن کے تيغ بے نيام آيا
يہ مصرع لکھ ديا کس شوخ نے محراب مسجد پر
يہ ناداں گر گئے سجدوں ميں جب وقت قيام آيا
چل ، اے ميری غريبی کا تماشا ديکھنے والے
وہ محفل اٹھ گئی جس دم تو مجھ تک دور جام آيا
ديا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا
يہ اک مرد تن آساں تھا ، تن آسانوں کے کام آيا
اسی اقبال کی ميں جستجو کرتا رہا برسوں
بڑی مدت کے بعد آخر وہ شاہيں زير دام آيا


Wednesday, 26 September 2012

Jab Ishq Sikhata Hai Aadaab..

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی


جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہيں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
عطار ہو ، رومی ہو ، رازی ہو ، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہيں آتا بے آہ سحر گاہی
نوميد نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ!
کم کوش تو ہيں ليکن بے ذوق نہيں راہی
اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز ميں کوتاہی
دارا و سکندر سے وہ مرد فقير اولی
ہو جس کی فقيری ميں بوئے اسد اللہی
آئين جوانمردں ، حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شيروں کو آتی نہيں روباہی


Khard Mandon Se Kia Pochun Ke...

خردمندوں سے کيا پوچھوں کہ ميری ابتدا کيا ہے


خردمندوں سے کيا پوچھوں کہ ميری ابتدا کيا ہے
کہ ميں اس فکر ميں رہتا ہوں ، ميری انتہا کيا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدير سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے ، بتا تيری رضا کيا ہے
مقام گفتگو کيا ہے اگر ميں کيميا گرہوں
يہی سوز نفس ہے ، اور ميری کيميا کيا ہے
نظر آئيں مجھے تقدير کی گہرائياں اس ميں
نہ پوچھ اے ہم نشيں مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کيا ہے
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے ميں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبريا کيا ہے
نواے صبح گاہی نے جگر خوں کر ديا ميرا
خدايا جس خطا کی يہ سزا ہے ، وہ خطا کيا ہے


جرمنی کا مشہور محذوب فلسفی نطشہ جو اپنے قلبی واردات کا
غلط اوراس ليے اس کے فلسفيانہ افکار نے اسے صحيح اندازہ نہ
راستے پر ڈال دياکرسکا


Aijaaz Hai Kisi Ka Ya Gardish e Zamana

اعجاز ہے کسی کا يا گردش زمانہ


اعجاز ہے کسی کا يا گردش زمانہ
ٹوٹا ہے ايشيا ميں سحر فرنگيانہ
تعمير آشياں سے ميں نے يہ راز پايا
اہل نوا کے حق ميں بجلی ہے آشيانہ
يہ بندگی خدائی ، وہ بندگی گدائی
يا بندہ خدا بن يا بندہ زمانہ
غافل نہ ہو خودی سے ، کر اپنی پاسبانی
شايد کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ
اے لا الہ کے وارث! باقی نہيں ہے تجھ ميں
گفتار دلبرانہ ، کردار قاہرانہ
تيری نگاہ سے دل سينوں ميں کانپتے تھے
کھويا گيا ہے تيرا جذب قلندرانہ
راز حرم سے شايد اقبال باخبر ہے
ہيں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ


Her Cheez Hai Mehav e Khud Numai

ہر چيز ہے محو خود نمائی 


ہر چيز ہے محو خود نمائی
ہر ذرہ شہيد کبريائی
بے ذوق نمود زندگی ، موت
تعمير خودی ميں ہے خدائی
رائی زور خودی سے پربت
پربت ضعف خودی سے رائی
تارے آوارہ و کم آميز
تقدير وجود ہے جدائی
يہ پچھلے پہر کا زرد رو چاند
بے راز و نياز آشنائی
تيری قنديل ہے ترا دل
تو آپ ہے اپنی روشنائی
اک تو ہے کہ حق ہے اس جہاں ميں
باقی ہے نمود سيميائی
ہيں عقدہ کشا يہ خار صحرا
کم کر گلہ برہنہ پائی


Her Shay Musafir Her Cheez Rahi

ہر شے مسافر ، ہر چيز راہی


ہر شے مسافر ، ہر چيز راہی
کيا چاند تارے ، کيا مرغ و ماہی
تو مرد ميداں ، تو مير لشکر
نوری حضوری تيرے سپاہی
کچھ قدر اپنی تو نے نہ جانی
يہ بے سوادی ، يہ کم نگاہی
دنيائے دوں کی کب تک غلامی
يا راہبی کر يا پادشاہی
پير حرم کو ديکھا ہے ميں نے
کردار بے سوز ، گفتار واہی


AFlaak Se Aata Hai Nalon Ka Jawab Aakhir

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر


افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہيں خطاب آخر ، اٹھتے ہيں حجاب آخر
احوال محبت ميں کچھ فرق نہيں ايسا
سوز و تب و تاب اول ، سوزو تب و تاب آخر
ميں تجھ کو بتاتا ہوں ، تقدير امم کيا ہے
شمشير و سناں اول ، طاؤس و رباب آخر
ميخانہ يورپ کے دستور نرالے ہيں
لاتے ہيں سرور اول ، ديتے ہيں شراب آخر
کيا دبدبہ نادر ، کيا شوکت تيموری
ہو جاتے ہيں سب دفتر غرق مئے ناب آخر
خلوت کی گھڑی گزری ، جلوت کی گھڑی آئی
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر
تھا ضبط بہت مشکل اس سيل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر


Khird Ne Mujh Ko Ata Ki Nazar Hakeemana

خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکيمانہ


خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکيمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حديث رندانہ
نہ بادہ ہے ، نہ صراحی ، نہ دور پيمانہ
فقط نگاہ سے رنگيں ہے بزم جانانہ
مری نوائے پريشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ ميں ہوں محرم راز درون ميخانہ
کلی کو ديکھ کہ ہے تشنہ نسيم سحر
اسی ميں ہے مرے دل کا تمام افسانہ
کوئی بتائے مجھے يہ غياب ہے کہ حضور
سب آشنا ہيں يہاں ، ايک ميں ہوں بيگانہ
فرنگ ميں کوئی دن اور بھی ٹھہر جاؤں
مرے جنوں کو سنبھالے اگر يہ ويرانہ
مقام عقل سے آساں گزر گيا اقبال
مقام شوق ميں کھويا گيا وہ فرزانہ


Tu a Aseer Makan lamakan se Door Nahi

تو اے اسير مکاں! لامکاں سے دور نہيں


تو اے اسير مکاں! لامکاں سے دور نہيں
وہ جلوہ گاہ ترے خاک داں سے دور نہيں
وہ مرغزار کہ بيم خزاں نہيں جس ميں
غميں نہ ہو کہ ترے آشياں سے دور نہيں
يہ ہے خلاصہ علم قلندری کہ حيات
خدنگ جستہ ہے ليکن کماں سے دور نہيں
فضا تری مہ و پرويں سے ہے ذرا آگے
قدم اٹھا ، يہ مقام آسماں سے دور نہيں
کہے نہ راہ نما سے کہ چھوڑ دے مجھ کو
يہ بات راہرو نکتہ داں سے دور نہيں


Na Tu Zameen Ke Liay..

نہ تو زميں کے ليے ہے نہ آسماں کے ليے


نہ تو زميں کے ليے ہے نہ آسماں کے ليے
جہاں ہے تيرے ليے ، تو نہيں جہاں کے ليے
يہ عقل و دل ہيں شرر شعلہ محبت کے
وہ خار و خس کے ليے ہے ، يہ نيستاں کے ليے
مقام پرورش آہ و نالہ ہے يہ چمن
نہ سير گل کے ليے ہے نہ آشياں کے ليے
رہے گا راوی و نيل و فرات ميں کب تک
ترا سفينہ کہ ہے بحر بے کراں کے ليے!
نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہيں کسی مرد راہ داں کے ليے
نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پرسوز
يہی ہے رخت سفر مير کارواں کے ليے
ذرا سی بات تھی ، انديشہ عجم نے اسے
بڑھا ديا ہے فقط زيب داستاں کے ليے
مرے گلو ميں ہے اک نغمہ جبرئيل آشوب
سنبھال کر جسے رکھا ہے لامکاں کے ليے


Nigah e Faqr Main Shaan Sikandri..

نگاہ فقر ميں شان سکندری کيا ہے


نگاہ فقر ميں شان سکندری کيا ہے
خراج کی جو گدا ہو ، وہ قيصری کيا ہے!
بتوں سے تجھ کو اميديں ، خدا سے نوميدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کيا ہے!
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھيں
خبر نہيں روش بندہ پروری کيا ہے
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فيصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ ميں شوخی تو دلبری کيا ہے
اسی خطا سے عتاب ملوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہوں مآل سکندری کيا ہے
کسے نہيں ہے تمنائے سروری ، ليکن
خودی کی موت ہو جس ميں وہ سروری کيا ہے
خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری ميری
وگرنہ شعر مرا کيا ہے ، شاعری کيا ہے


Khird Ke Pas Khabr Ke..

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہيں


خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہيں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہيں
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تيرا
حيات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہيں
گراں بہا ہے تو حفظ خودی سے ہے ورنہ
گہر ميں آب گہر کے سوا کچھ اور نہيں
رگوں ميں گردش خوں ہے اگر تو کيا حاصل
حيات سوز جگر کے سوا کچھ اور نہيں
عروس لالہ! مناسب نہيں ہے مجھ سے حجاب
کہ ميں نسيم سحر کے سوا کچھ اور نہيں
جسے کساد سمجھتے ہيں تاجران فرنگ
وہ شے متاع ہنر کے سوا کچھ اور نہيں
بڑا کريم ہے اقبال بے نوا ليکن
عطائے شعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہيں


Tuesday, 25 September 2012

Mere Kohistan Tujhe Chor Kr...

ميرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں


ميرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں
تيري چٹانوں ميں ہے ميرے اب و جد کي خاک
روز ازل سے ہے تو منزل شاہين و چرغ
لالہ و گل سے تہي ، نغمہ بلبل سے پاک
تيرے خم و پيچ ميں ميري بہشت بريں
خاک تري عنبريں ، آب ترا تاب ناک
باز نہ ہوگا کبھي بندہ کبک و حمام
حفظ بدن کے ليے روح کو کردوں ہلاک

اے مرے فقر غيور ! فيصلہ تيرا ہے کيا
خلعت انگريز يا پيرہن چاک چاک


Haqeeqat Azli Hai Raqabat Aqwaam

حقيقت ازلي ہے رقابت اقوام



حقيقت ازلي ہے رقابت اقوام
نگاہ پير فلک ميں نہ ميں عزيز ، نہ تو
خودي ميں ڈوب ، زمانے سے نا اميد نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمام رفو

رہے گا تو ہي جہاں ميں يگانہ و يکتا
اتر گيا جو ترے دل ميں 'لاشريک لہ


Teri Dua Se Qaza To Badl Nahi Sakti

تري دعا سے قضا تو بدل نہيں سکتي



تري دعا سے قضا تو بدل نہيں سکتي
مگر ہے اس سے يہ ممکن کہ تو بدل جائے
تري خودي ميں اگر انقلاب ہو پيدا
عجب نہيں ہے کہ يہ چار سو بدل جائے
وہي شراب ، وہي ہاے و ہو رہے باقي
طريق ساقي و رسم کدو بدل جائے

تري دعا ہے کہ ہو تيري آرزو پوري
مري دعا ہے تري آرزو بدل جائے


Kia Cahrkh Kaj Ro..

کيا چرخ کج رو ، کيا مہر ، کيا ماہ



کيا چرخ کج رو ، کيا مہر ، کيا ماہ
سب راہرو ہيں واماندہ راہ
کڑکا سکندر بجلي کي مانند
تجھ کو خبر ہے اے مرگ ناگاہ
نادر نے لوٹي دلي کي دولت
اک ضرب شمشير ، افسانہ کوتاہ
افغان باقي ، کہسار باقي
الحکم للہ ! الملک للہ
حاجت سے مجبور مردان آزاد
کرتي ہے حاجت شيروں کو روباہ
محرم خودي سے جس دم ہوا فقر
تو بھي شہنشاہ ، ميں بھي شہنشاہ

قوموں کي تقدير وہ مرد درويش
جس نے نہ ڈھونڈي سلطاں کي درگاہ


Yeh Mudrssa Yeh Khail Yeh..

يہ مدرسہ يہ کھيل يہ غوغائے روارو



يہ مدرسہ يہ کھيل يہ غوغائے روارو
اس عيش فراواں ميں ہے ہر لحظہ غم نو
وہ علم نہيں ، زہر ہے احرار کے حق ميں
جس علم کا حاصل ہے جہاں ميں دو کف جو
ناداں ! ادب و فلسفہ کچھ چيز نہيں ہے
اسباب ہنر کے ليے لازم ہے تگ و دو
فطرت کے نواميس پہ غالب ہے ہنر مند
شام اس کي ہے مانند سحر صاحب پرتو

وہ صاحب فن چاہے تو فن کي برکت سے
ٹپکے بدن مہر سے شبنم کي طرح ضو


Jo Aalim Aijad Main Hai..

جو عالم ايجاد ميں ہے صاحب ايجاد



جو عالم ايجاد ميں ہے صاحب ايجاد
ہر دور ميں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
تقليد سے ناکارہ نہ کر اپني خودي کو
کر اس کي حفاظت کہ يہ گوہر ہے يگانہ
اس قوم کو تجديد کا پيغام مبارک
ہے جس کے تصور ميں فقط بزم شبانہ

ليکن مجھے ڈر ہے کہ يہ آوازہ تجديد
مشرق ميں ہے تقليد فرنگي کا بہانہ


Rumi Badlay Shaami Badlay Badla Hindustan

رومي بدلے ، شامي بدلے، بدلا ہندستان



رومي بدلے ، شامي بدلے، بدلا ہندستان
تو بھي اے فرزند کہستاں! اپني خودي پہچان

اپني خودي پہچان
او غافل افغان

موسم اچھا ، پاني وافر ، مٹي بھي زرخيز
جس نے اپنا کھيت نہ سينچا ، وہ کيسا دہقان

اپني خودي پہچان
او غافل افغان

اونچي جس کي لہر نہيں ہے ، وہ کيسا درياے
جس کي ہوائيں تند نہيں ہيں ، وہ کيسا طوفان

اپني خودي پہچان
او غافل افغان

ڈھونڈ کے اپني خاک ميں جس نے پايا اپنا آپ
اس بندے کي دہقاني پر سلطاني قربان

اپني خودي پہچان
او غافل افغان

تيري بے علمي نے رکھ لي بے علموں کي لاج
عالم فاضل بيچ رہے ہيں اپنا دين ايمان

اپني خودي پہچان
او غافل افغان


Zaagh Kehta Hai Nihayt Badnuma Hain Tere Par

زاغ کہتا ہے نہايت بدنما ہيں تيرے پر



زاغ کہتا ہے نہايت بدنما ہيں تيرے پر
شپرک کہتي ہے تجھ کو کور چشم و بے ہنر
ليکن اے شہباز! يہ مرغان صحرا کے اچھوت
ہيں فضائے نيلگوں کے پيچ و خم سے بے خبر

ان کو کيا معلوم اس طائر کے احوال و مقام
روح ہے جس کي دم پرواز سر تا پا نظر


Ishq Teenat Main Fromaya..

عشق طينت ميں فرومايہ نہيں مثل ہوس



عشق طينت ميں فرومايہ نہيں مثل ہوس
پر شہباز سے ممکن نہيں پرواز مگس
يوں بھي دستور گلستاں کو بدل سکتے ہيں
کہ نشيمن ہو عنادل پہ گراں مثل قفس
سفر آمادہ نہيں منتظر بانگ رحيل
ہے کہاں قافلہ موج کو پروائے جرس
گرچہ مکتب کا جواں زندہ نظر آتا ہے
مردہ ہے ، مانگ کے لايا ہے فرنگي سے نفس

پرورش دل کي اگر مد نظر ہے تجھ کو
مرد مومن کي نگاہ غلط انداز ہے بس


Wohi Jawan Hai Qabeelay..

وہي جواں ہے قبيلے کي آنکھ کا تارا



وہي جواں ہے قبيلے کي آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ، ضرب ہے کاري
اگر ہو جنگ تو شيران غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صلح تو رعنا غزال تاتاري
عجب نہيں ہے اگر اس کا سوز ہے ہمہ سوز
کہ نيستاں کے ليے بس ہے ايک چنگاري
خدا نے اس کو ديا ہے شکوہ سلطاني
کہ اس کے فقر ميں ہے حيدري و کراري


Jis Ke Perto Se Munawar..

جس کے پرتو سے منور رہي تيري شب دوش



جس کے پرتو سے منور رہي تيري شب دوش
پھر بھي ہو سکتا ہے روشن وہ چراغ خاموش
مرد بے حوصلہ کرتا ہے زمانے کا گلہ
بندئہ حر کے ليے نشتر تقدير ہے نوش
نہيں ہنگامہ پيکار کے لائق وہ جواں
جو ہوا نالہ مرغان سحر سے مدہوش

مجھ کو ڈر ہے کہ ہے طفلانہ طبيعت تيري
اور عيار ہيں يورپ کے شکر پارہ فروش


La Deeni O La Teeni..

لا ديني و لاطيني ، کس پيچ ميں الجھا تو



لا ديني و لاطيني ، کس پيچ ميں الجھا تو
دارو ہے ضعيفوں کا 'لاغالب الا ھو'
صياد معاني کو يورپ سے ہے نوميدي
دلکش ہے فضا ، ليکن بے نافہ تمام آہو
بے اشک سحر گاہي تقويم خودي مشکل
يہ لالہ پيکاني خوشتر ہے کنار جو
صياد ہے کافر کا ، نخچير ہے مومن کا
يہ دير کہن يعني بتخانہ رنگ و بو

اے شيخ ، اميروں کو مسجد سے نکلوا دے
ہے ان کي نمازوں سے محراب ترش ابرو


Mujh Ko To Yeh Dunya Nazar Aati Hai..

مجھ کو تو يہ دنيا نظر آتي ہے دگرگوں



مجھ کو تو يہ دنيا نظر آتي ہے دگرگوں
معلوم نہيں ديکھتي ہے تيري نظر کيا
ہر سينے ميں اک صبح قيامت ہے نمودار
افکار جوانوں کے ہوئے زير و زبر کيا
کر سکتي ہے بے معرکہ جينے کي تلافي
اے پير حرم تيري مناجات سحر کيا

ممکن نہيں تخليق خودي خانقہوں سے
اس شعلہ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کيا


Be Jurrat Rindana Per Ishq...

بے جرات رندانہ ہر عشق ہے روباہي



بےجرات رندانہ ہر عشق ہے روباہي
بازو ہے قوي جس کا ، وہ عشق يداللہي
جو سختي منزل کو سامان سفر سمجھے
اے وائے تن آساني ! ناپيد ہے وہ راہي
وحشت نہ سمجھ اس کو اے مردک ميداني
کہسار کي خلوت ہے تعليم خود آگاہي

دنيا ہے رواياتي ، عقبي ہے مناجاتي
در باز دو عالم را ، اين است شہنشاہي


Adam Ka Zameer Is Ki Haqeeqat..

آدم کا ضمير اس کي حقيقت پہ ہے شاہد



آدم کا ضمير اس کي حقيقت پہ ہے شاہد
مشکل نہيں اے سالک رہ ! علم فقيري
فولاد کہاں رہتا ہے شمشير کے لائق
پيدا ہو اگر اس کي طبيعت ميں حريري
خود دار نہ ہو فقر تو ہے قہر الہي
ہو صاحب غيرت تو ہے تمہيد اميري

افرنگ ز خود بے خبرت کرد وگرنہ
اے بندئہ مومن ! تو بشيري ، تو نذيري


Qomon Ke Liay Moat Hai..

قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائی



قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائي
ہو صاحب مرکز تو خودي کيا ہے ، خدائي
جو فقر ہوا تلخي دوراں کا گلہ مند
اس فقر ميں باقي ہے ابھي بوئے گدائي
اس دور ميں بھي مرد خدا کو ہے ميسر
جو معجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائي
در معرکہ بے سوز تو ذوقے نتواں يافت
اے بندئہ مومن تو کجائي ، تو کجائي

خورشيد ! سرا پردئہ مشرق سے نکل کر
پہنا مرے کہسار کو ملبوس حنائي


Aag Is Ki Phoonk Deti Hai..

آگ اس کي پھونک ديتي ہے برنا و پير کو



آگ اس کي پھونک ديتي ہے برنا و پير کو
لاکھوں ميں ايک بھي ہو اگر صاحب يقيں
ہوتا ہے کوہ و دشت ميں پيدا کبھي کبھي
وہ مرد جس کا فقر خزف کو کرے نگيں
تو اپني سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ
خالي رکھي ہے خامہ حق نے تري جبيں
يہ نيلگوں فضا جسے کہتے ہيں آسماں
ہمت ہو پرکشا تو حقيقت ميں کچھ نہيں

بالائے سر رہا تو ہے نام اس کا آسماں
زير پر آگيا تو يہي آسماں ، زميں


Yeh Nukta Khoob Kaha..

يہ نکتہ خوب کہا شير شاہ سوري نے



يہ نکتہ خوب کہا شير شاہ سوري نے
کہ امتياز قبائل تمام تر خواري
عزيز ہے انھيں نام وزيري و محسود
ابھي يہ خلعت افغانيت سے ہيں عاري
ہزار پارہ ہے کہسار کي مسلماني
کہ ہر قبيلہ ہے اپنے بتوں کا زناري

وہي حرم ہے ، وہي اعتبار لات و منات
خدا نصيب کرے تجھ کو ضربت کاري


Nigah Wo Nahi Jo Surkh o Zard..

نگاہ وہ نہيں جو سرخ و زرد پہچانے



نگاہ وہ نہيں جو سرخ و زرد پہچانے
نگاہ وہ ہے کہ محتاج مہر و ماہ نہيں
فرنگ سے بہت آگے ہے منزل مومن
قدم اٹھا! يہ مقام انتہائے راہ نہيں
کھلے ہيں سب کے ليے غربيوں کے ميخانے
علوم تازہ کي سرمستياں گناہ نہيں
اسي سرور ميں پوشيدہ موت بھي ہے تري
ترے بدن ميں اگر سوز 'لاالہ' نہيں

سنيں گے ميري صداخانزاد گان کبير؟
گليم پوش ہوں ميں صاحب کلاہ نہيں


Fitrat Ke Maqasid Ki Krta Hai..

فطرت کے مقاصد کي کرتا ہے نگہباني



يا بندہ صحرائي يا مرد کہستاني
دنيا ميں محاسب ہے تہذيب فسوں گر کا
ہے اس کي فقيري ميں سرمايہ سلطاني
يہ حسن و لطافت کيوں ؟ وہ قوت و شوکت کيوں
بلبل چمنستاني ، شہباز بياباني
اے شيخ ! بہت اچھي مکتب کي فضا ، ليکن
بنتي ہے بياباں ميں فاروقي و سلماني

صديوں ميں کہيں پيدا ہوتا ہے حريف اس کا
تلوار ہے تيزي ميں صہبائے مسلماني


Mashrik o Maghrib

مشرق و مغرب



يہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقليد
وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری

نہ مشرق اس سے بری ہے ، نہ مغرب اس سے بری
جہاں ميں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری


Nafsiati Haakmi

نفسيات حاکمي



اصلاحات

يہ مہر ہے بے مہري صياد کا پردہ
آئي نہ مرے کام مري تازہ صفيري

رکھنے لگا مرجھائے ہوئے پھول قفس ميں
شايد کہ اسيروں کو گوارا ہو اسيري


Falasteeni Arab Se

فلسطينی عرب سے



زمانہ اب بھی نہيں جس کے سوز سے فارغ
ميں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود ميں ہے
تری دوا نہ جنيوا ميں ہے ، نہ لندن ميں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ يہود ميں ہے

سنا ہے ميں نے ، غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود ميں ہے


Ghulamon Ki Namaz

غلاموں کي نماز



ترکي وفد ہلال احمر لاہور ميں

کہا مجاہد ترکي نے مجھ سے بعد نماز
طويل سجدہ ہيں کيوں اس قدر تمھارے امام
وہ سادہ مرد مجاہد ، وہ مومن آزاد
خبر نہ تھي اسے کيا چيز ہے نماز غلام
ہزار کام ہيں مردان حر کو دنيا ميں
انھي کے ذوق عمل سے ہيں امتوں کے نظام
بدن غلام کا سوز عمل سے ہے محروم
کہ ہے مرور غلاموں کے روز و شب پہ حرام
طويل سجدہ اگر ہيں تو کيا تعجب ہے
ورائے سجدہ غريبوں کو اور کيا ہے کام

خدا نصيب کرے ہند کے اماموں کو
وہ سجدہ جس ميں ہے ملت کي زندگي کا پيام


Nafsiat e Ghulami

نفسيات غلامی



سخت باريک ہيں امراض امم کے اسباب
کھول کر کہيے تو کرتا ہے بياں کوتاہي

دين شيري ميں غلاموں کے امام اور شيوخ
ديکھتے ہيں فقط اک فلسفہ روباہي

ہو اگر قوت فرعون کي در پردہ مريد
قوم کے حق ميں ہے لعنت وہ کليم اللہي


Siasi Paishwa

سياسي پيشوا



اميد کيا ہے سياست کے پيشواؤں سے
يہ خاک باز ہيں ، رکھتے ہيں خاک سے پيوند

ہميشہ مور و مگس پر نگاہ ہے ان کي
جہاں ميں صفت عنکبوت ان کي کمند

خوشا وہ قافلہ ، جس کے امير کي ہے متاع
تخيل ملکوتي و جذبہ ہائے بلند


Shaam o Falasteen(Palestine)

شام و فلسطين



رندان فرانسيس کا ميخانہ سلامت
پر ہے م ے گلرنگ سے ہر شيشہ حلب کا

ہے خاک فلسطيں پہ يہودي کا اگر حق
ہسپانيہ پر حق نہيں کيوں اہل عرب کا

مقصد ہے ملوکيت انگليس کا کچھ اور
قصہ نہيں نارنج کا يا شہد و رطب کا


Jamiat Aqwaam

جمعيت اقوام



بيچاري کئي روز سے دم توڑ رہي ہے
ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے
تقدير تو مبرم نظر آتي ہے وليکن
پيران کليسا کي دعا يہ ہے کہ ٹل جائے
ممکن ہے کہ يہ داشتہ پيرک افرنگ
ابليس کے تعويذ سے کچھ روز سنبھل جائے


Aik Behri Qazzak aur Sikandar

ايک بحری قزاق اور سکندر



سکندر


صلہ تيرا تري زنجير يا شمشير ہے ميري
کہ تيري رہزني سے تنگ ہے دريا کي پہنائي


قزاق


سکندر ! حيف ، تو اس کو جواں مردي سمجھتا ہے
گوارا اس طرح کرتے ہيں ہم چشموں کي رسوائي؟
ترا پيشہ ہے سفاکي ، مرا پيشہ ہے سفاکي
کہ ہم قزاق ہيں دونوں ، تو ميداني ، ميں دريائي


Daam e Tehzeeb

دام تہذيب



اقبال کو شک اس کي شرافت ميں نہيں ہے
ہر ملت مظلوم کا يورپ ہے خريدار
يہ پير کليسا کي کرامت ہے کہ اس نے
بجلي کے چراغوں سے منور کيے افکار
جلتا ہے مگر شام و فلسطيں پہ مرا دل
تدبير سے کھلتا نہيں يہ عقدہ دشوار

ترکان 'جفا پيشہ' کے پنجے سے نکل کر
بيچارے ہيں تہذيب کے پھندے ميں گرفتار


Naseehat

نصيحت



اک لرد فرنگي نے کہا اپنے پسر سے
منظر وہ طلب کر کہ تري آنکھ نہ ہو سير
بيچارے کے حق ميں ہے يہي سب سے بڑا ظلم
برے پہ اگر فاش کريں قاعدہ شير
سينے ميں رہے راز ملوکانہ تو بہتر
کرتے نہيں محکوم کو تيغوں سے کبھي زير
تعليم کے تيزاب ميں ڈال اس کي خودي کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے ، اسے پھير

تاثير ميں اکسير سے بڑھ کر ہے يہ تيزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹي کا ہے اک ڈھير


La Deen Siasat

لادين سياست



جو بات حق ہو ، وہ مجھ سے چھپي نہيں رہتي
خدا نے مجھ کو ديا ہے دل خبير و بصير
مري نگاہ ميں ہے يہ سياست لا ديں
کنيز اہرمن و دوں نہاد و مردہ ضمير
ہوئي ہے ترک کليسا سے حاکمي آزاد
فرنگيوں کي سياست ہے ديو بے زنجير

متاع غير پہ ہوتي ہے جب نظر اس کي
تو ہيں ہراول لشکر کليسيا کے سفير


Monday, 24 September 2012

Intdaab

انتداب



کہاں فرشتہ تہذيب کي ضرورت ہے
نہيں زمانہ حاضر کو اس ميں دشواري
جہاں قمار نہيں ، زن تنک لباس نہيں
جہاں حرام بتاتے ہيں شغل مے خواري
بدن ميں گرچہ ہے اک روح ناشکيب و عميق
طريقہ اب و جد سے نہيں ہے بيزاري
جسور و زيرک و پردم ہے بچہ بدوي
نہيں ہے فيض مکاتب کا چشمہ جاري

نظروران فرنگي کا ہے يہي فتوي
وہ سرزميں مدنيت سے ہے ابھي عاري


Gilah

گلہ



معلوم کسے ہند کي تقدير کہ اب تک
بيچارہ کسي تاج کا تابندہ نگيں ہے
دہقاں ہے کسي قبر کا اگلا ہوا مردہ
بوسيدہ کفن جس کا ابھي زير زميں ہے
جاں بھي گرو غير ، بدن بھي گرو غير
افسوس کہ باقي نہ مکاں ہے نہ مکيں ہے

يورپ کي غلامي پہ رضا مند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے ، يورپ سے نہيں ہے


Masooleni

مسولينی



اپنے مشرقي اور مغربي حريفوں سے


کيا زمانے سے نرالا ہے مسوليني کا جرم
بے محل بگڑا ہے معصومان يورپ کا مزاج
ميں پھٹکتا ہوں تو چھلني کو برا لگتا ہے کيوں
ہيں سبھي تہذيب کے اوزار ! تو چھلني ، ميں چھاج
ميرے سودائے ملوکيت کو ٹھکراتے ہو تم
تم نے کيا توڑے نہيں کمزور قوموں کے زجاج؟
يہ عجائب شعبدے کس کي ملوکيت کے ہيں
راجدھاني ہے ، مگر باقي نہ راجا ہے نہ راج
آل سيزر چوب نے کي آبياري ميں رہے
اور تم دنيا کے بنجر بھي نہ چھوڑو بے خراج
تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشينوں کے خيام
تم نے لوٹي کشت دہقاں ، تم نے لوٹے تخت و تاج

پردہ تہذيب ميں غارت گري ، آدم کشي
کل روا رکھي تھي تم نے ، ميں روا رکھتا ہوں آج

---------

ء کو بھوپال (شيش محل) ميں لکھے گئے1935 اگست 22


Europe aur suria

يورپ اور سوريا



فرنگيوں کو عطا خاک سوريا نے کيا
نبي عفت و غم خواري و کم آزاري

صلہ فرنگ سے آيا ہے سوريا کے ليے
مے و قمار و ہجوم زنان بازاري


Jamhuriat

جمہوريت


اس راز کو اک مرد فرنگي نے کيا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہيں کرتے

جمہوريت اک طرز حکومت ہے کہ جس ميں
بندوں کو گنا کرتے ہيں ، تولا نہيں کرتے


Sultani Javaid

سلطاني جاويد



غواص تو فطرت نے بنايا ہے مجھے بھي
ليکن مجھے اعماق سياست سے ہے پرہيز
فطرت کو گوارا نہيں سلطاني جاويد
ہر چند کہ يہ شعبدہ بازي ہے دل آويز

فرہاد کي خارا شکني زندہ ہے اب تک
باقي نہيں دنيا ميں ملوکيت پرويز


Jamiat Aqwam e Mashrik

جمعيت اقوام مشرق



پاني بھي مسخر ہے ، ہوا بھي ہے مسخر
کيا ہو جو نگاہ فلک پير بدل جائے
ديکھا ہے ملوکيت افرنگ نے جو خواب
ممکن ہے کہ اس خواب کي تعبير بدل جائے
طہران ہو گر عالم مشرق کا جينوا
شايد کرہ ارض کي تقدير بدل جائے

----------------

بھوپال(شيش محل) ميں لکھے گئے


Iblees Ka Ferman Apne Siasi ...

ابليس کا فرمان اپنے سياسي فرزندوں کے نام



لا کر برہمنوں کو سياست کے پيچ ميں
زناريوں کو دير کہن سے نکال دو
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہيں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگي تخيلات
اسلام کو حجاز و يمن سے نکال دو
افغانيوں کي غيرت ديں کا ہے يہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہل حرم سے ان کي روايات چھين لو
آہو کو مرغزار ختن سے نکال دو

اقبال کے نفس سے ہے لالے کي آگ تيز
ايسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو


Abi Seenia

ابي سينيا - 1935 18 اگست




يورپ کے کرگسوں کو نہيں ہے ابھي خبر
ہے کتني زہر ناک ابي سينيا کي لاش
ہونے کو ہے يہ مردہ ديرينہ قاش قاش
تہذيب کا کمال شرافت کا ہے زوال
غارت گري جہاں ميں ہے اقوام کي معاش
ہر گرگ کو ہے برہ معصوم کي تلاش
اے وائے آبروئے کليسا کا آءنہ

روما نے کر ديا سر بازار پاش پاش
پير کليسيا ! يہ حقيقت ہے دلخراش


Ahal e Misr Se

اہل مصر سے



خود ابوالہول نے يہ نکتہ سکھايا مجھ کو
وہ ابوالہول کہ ہے صاحب اسرار قديم
دفعتہً جس سے بدل جاتي ہے تقدير امم
ہے وہ قوت کہ حريف اس کي نہيں عقل حکيم

ہر زمانے ميں دگر گوں ہے طبيعت اس کي
کبھي شمشير محمد ہے ، کبھي چوب کليم


Ghulamon Ke Liay

غلاموں کے ليے



حکمت مشرق و مغرب نے سکھايا ہے مجھے
ايک نکتہ کہ غلاموں کے ليے ہے اکسير
دين ہو ، فلسفہ ہو ، فقر ہو ، سلطاني ہو
ہوتے ہيں پختہ عقائد کي بنا پر تعمير

حرف اس قوم کا بے سوز ، عمل زار و زبوں
ہو گيا پختہ عقائد سے تہي جس کا ضمير


Khawajgi

خواجگی



دور حاضر ہے حقيقت ميں وہي عہد قديم
اہل سجادہ ہيں يا اہل سياست ہيں امام
اس ميں پيري کي کرامت ہے نہ ميري کا ہے زور
سينکڑوں صديوں سے خوگر ہيں غلامي کے عوام

خواجگي ميں کوئي مشکل نہيں رہتي باقي
پختہ ہو جاتے ہيں جب خوئے غلامي ميں غلام


Siasat Afrang

سياست افرنگ



تري حريف ہے يارب سياست افرنگ
مگر ہيں اس کے پجاري فقط امير و رئيس

بنايا ايک ہي ابليس آگ سے تو نے
بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابليس


Aaj aur Kal

آج اور کل



وہ کل کے غم و عيش پہ کچھ حق نہيں رکھتا
جو آج خود افروز و جگر سوز نہيں ہے

وہ قوم نہيں لائق ہنگامہ فردا
جس قوم کي تقدير ميں امروز نہيں ہے


Mashrik

مشرق



مري نوا سے گريبان لالہ چاک ہوا
نسيم صبح ، چمن کي تلاش ميں ہے ابھي
نہ مصطفي نہ رضا شاہ ميں نمود اس کي
کہ روح شرق بدن کي تلاش ميں ہے ابھي

مري خودي بھي سزا کي ہے مستحق ليکن
زمانہ دارو رسن کي تلاش ميں ہے ابھي


Balshveek Roos

بلشويک روس



روش قضائے الہي کي ہے عجيب و غريب
خبر نہيں کہ ضمير جہاں ميں ہے کيا بات
ہوئے ہيں کسر چليپا کے واسطے مامور
وہي کہ حفظ چليپا کو جانتے تھے نجات

يہ وحي دہريت روس پر ہوئي نازل
کہ توڑ ڈال کليسائيوں کے لات و منات


Nafsiat Ghulami

نفسيات غلامی



شاعر بھي ہيں پيدا ، علما بھي ، حکما بھي
خالي نہيں قوموں کي غلامي کا زمانہ
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ايک
ہر ايک ہے گو شرح معاني ميں يگانہ
بہتر ہے کہ شيروں کو سکھا ديں رم آہو
باقي نہ رہے شير کي شيري کا فسانہ

کرتے ہيں غلاموں کو غلامي پہ رضامند
تاويل مسائل کو بناتے ہيں بہانہ


Europe aur Yahood

يورپ اور يہود



يہ عيش فراواں ، يہ حکومت ، يہ تجارت
دل سينہ بے نور ميں محروم تسلي
تاريک ہے افرنگ مشينوں کے دھويں سے
يہ وادي ايمن نہيں شايان تجلي

ہے نزع کي حالت ميں يہ تہذيب جواں مرگ
شايد ہوں کليسا کے يہودي متولي


Khushamad

خوشامد



ميں کار جہاں سے نہيں آگاہ ، وليکن
ارباب نظر سے نہيں پوشيدہ کوئي راز
کر تو بھي حکومت کے وزيروں کي خوشامد
دستور نيا ، اور نئے دور کا آغاز

معلوم نہيں ، ہے يہ خوشامد کہ حقيقت
کہہ دے کوئي الو کو اگر 'رات کا شہباز


Munasib

مناصب



ہوا ہے بندئہ مومن فسوني افرنگ
اسي سبب سے قلندر کي آنکھ ہے نم ناک
ترے بلند مناصب کي خير ہو يارب
کہ ان کے واسطے تو نے کيا خودي کو ہلاک
مگر يہ بات چھپائے سے چھپ نہيں سکتي
سمجھ گئي ہے اسے ہر طبيعت چالاک

شريک حکم غلاموں کو کر نہيں سکتے
خريدتے ہيں فقط ان کا جوہر ادراک


Inqilab

انقلاب



نہ ايشيا ميں نہ يورپ ميں سوز و ساز حيات
خودي کي موت ہے يہ ، اور وہ ضمير کي موت

دلوں ميں ولولہ انقلاب ہے پيدا
قريب آگئي شايد جہان پير کي موت


Karl Marx Ki Awaz

کارل مارکس کی آواز



يہ علم و حکمت کي مہرہ بازي ، يہ بحث و تکرار کي نمائش
نہيں ہے دنيا کو اب گوارا پرانے افکار کي نمائش

تري کتابوں ميں اے حکيم معاش رکھا ہي کيا ہے آخر
خطوط خم دار کي نمائش ، مريز و کج دار کي نمائش

جہان مغرب کے بت کدوں ميں ، کليسياؤں ميں ، مدرسوں ميں
ہوس کي خون ريزياں چھپاتي ہے عقل عيار کي نمائش


Ishtrakiat

اشتراکيت


قوموں کي روش سے مجھے ہوتا ہے يہ معلوم
بے سود نہيں روس کي يہ گرمي رفتار
انديشہ ہوا شوخي افکار پہ مجبور
فرسودہ طريقوں سے زمانہ ہوا بيزار
انساں کي ہوس نے جنھيں رکھا تھا چھپا کر
کھلتے نظر آتے ہيں بتدريج وہ اسرار
قرآن ميں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار

جو حرف 'قل العفو' ميں پوشيدہ ہے اب تک
اس دور ميں شايد وہ حقيقت ہو نمودار


Romantic Lovely urdu shayri.Love you




Saturday, 22 September 2012

Raqas

رقص



چھوڑ يورپ کے ليے رقص بدن کے خم و پيچ
روح کے رقص ميں ہے ضرب کليم اللہي

صلہ اس رقص کا ہے تشنگي کام و دہن
صلہ اس رقص کا درويشي و شاہنشاہي


Zabat

ضبط



طريق اہل دنيا ہے گلہ شکوہ زمانے کا
نہيں ہے زخم کھا کر آہ کرنا شان درويشی

يہ نکتہ پير دانا نے مجھے خلوت ميں سمجھايا
کہ ہے ضبط فغاں شيری ، فغاں روباہی و ميشی


Shair

شعر



ميں شعر کے اسرار سے محرم نہيں ليکن
يہ نکتہ ہے ، تاريخ امم جس کي ہے تفصيل

وہ شعر کہ پيغام حيات ابدي ہے
يا نغمہ جبريل ہے يا بانگ سرافيل


Zoaq e Nazar

ذوق نظر



خودي بلند تھي اس خوں گرفتہ چيني کي
کہا غريب نے جلاد سے دم تعزير

ٹھہر ٹھہر کہ بہت دل کشا ہے يہ منظر
ذرا ميں ديکھ تو لوں تاب ناکي شمشير


Moseeqi

موسيقی



وہ نغمہ سردي خون غزل سرا کي دليل
کہ جس کو سن کے ترا چہرہ تاب ناک نہيں
نوا کو کرتا ہے موج نفس سے زہر آلود
وہ نے نواز کہ جس کا ضمير پاک نہيں

پھرا ميں مشرق و مغرب کے لالہ زاروں ميں
کسي چمن ميں گريبان لالہ چاک نہيں


Aijaad e Ma'ani

ايجاد معاني



ہر چند کہ ايجاد معاني ہے خدا داد
کوشش سے کہاں مرد ہنر مند ہے آزاد
خون رگ معمار کي گرمي سے ہے تعمير
ميخانہ حافظ ہو کہ بتخانہ بہزاد

بے محنت پيہم کوئي جوہر نہيں کھلتا
روشن شرر تيشہ سے ہے خانہ فرہاد


Aalim e Nu

عالم نو



زندہ دل سے نہيں پوشيدہ ضمير تقدير
خواب ميں ديکھتا ہے عالم نو کی تصوير
اور جب بانگ اذاں کرتي ہے بيدار اسے
کرتا ہے خواب ميں ديکھي ہوئي دنيا تعمير

بدن اس تازہ جہاں کا ہے اسي کي کف خاک
روح اس تازہ جہاں کي ہے اسي کي تکبير


Mard e Bazurg

مرد بزرگ



فرت بھي عميق ، اس کي محبت بھي عميقاس کي ن
قہر بھي اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفيق
پرورش پاتا ہے تقليد کي تاريکي ميں
ہے مگر اس کي طبيعت کا تقاضا تخليق
انجمن ميں بھي ميسر رہي خلوت اس کو
شمع محفل کي طرح سب سے جدا ، سب کا رفيق
مثل خورشيد سحر فکر کي تاباني ميں
بات ميں سادہ و آزادہ، معاني ميں دقيق

اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا
اس کے احوال سے محرم نہيں پيران طريق


Hunr wraan e Hind

ہنروران ہند



عشق و مستي کا جنازہ ہے تخيل ان کا
ان کے انديشہ تاريک ميں قوموں کے مزار
موت کي نقش گري ان کے صنم خانوں ميں
زندگي سے ہنر ان برہمنوں کا بيزار
چشم آدم سے چھپاتے ہيں مقامات بلند
کرتے ہيں روح کو خوابيدہ ، بدن کو بيدار

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نويس
آہ ! بيچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار


Shair e Ajam

شعر عجم



ہے شعر عجم گرچہ طرب ناک و دل آويز
اس شعر سے ہوتي نہيں شمشير خودي تيز
افسردہ اگر اس کي نوا سے ہو گلستاں
بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خيز
وہ ضرب اگر کوہ شکن بھي ہو تو کيا ہے
جس سے متزلزل نہ ہوئي دولت پرويز

اقبال يہ ہے خارہ تراشي کا زمانہ
'از ہر چہ بآئينہ نمايند بہ پرہيز


Shayer

شاعر



مشرق کے نيستاں ميں ہے محتاج نفس نے
شاعر ! ترے سينے ميں نفس ہے کہ نہيں ہے
تاثير غلامي سے خودي جس کي ہوئي نرم
اچھي نہيں اس قوم کے حق ميں عجمي لے
شيشے کي صراحي ہو کہ مٹي کا سبو ہو
شمشير کي مانند ہو تيزي ميں تري مے
ايسي کوئي دنيا نہيں افلاک کے نيچے
بے معرکہ ہاتھ آئے جہاں تخت جم و کے

ہر لحظہ نيا طور ، نئي برق تجلي
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے


Fawarah

فوارہ


يہ آبجو کي رواني ، يہ ہمکناري خاک
مري نگاہ ميں ناخوب ہے يہ نظارہ

ادھر نہ ديکھ ، ادھر ديکھ اے جوان عزيز
بلند زور دروں سے ہوا ہے فوارہ


Sarood o Haraam

سرود حرام



نہ ميرے ذکر ميں ہے صوفيوں کا سوز و سرور
نہ ميرا فکر ہے پيمانہ ثواب و عذاب
خدا کرے کہ اسے اتفاق ہو مجھ سے
فقيہ شہر کہ ہے محرم حديث و کتاب

اگر نوا ميں ہے پوشيدہ موت کا پيغام
حرام ميري نگاہوں ميں ناے و چنگ و رباب


Sarood o Hilal

سرود حلال



کھل تو جاتا ہے مغني کے بم و زير سے دل
نہ رہا زندہ و پائندہ تو کيا دل کي کشود
ہے ابھي سينہ افلاک ميں پنہاں وہ نوا
جس کي گرمي سے پگھل جائے ستاروں کا وجود
جس کي تاثير سے آدم ہو غم و خوف سے پاک
اور پيدا ہو ايازي سے مقام محمود
مہ و انجم کا يہ حيرت کدہ باقي نہ رہے
تو رہے اور ترا زمزمہ لا موجود

جس کو مشروع سمجھتے ہيں فقيہان خودي
منتظر ہے کسي مطرب کا ابھي تک وہ سرود


Musawir

مصور



کس درجہ يہاں عام ہوئي مرگ تخيل
ہندي بھي فرنگي کا مقلد ، عجمي بھي
مجھ کو تو يہي غم ہے کہ اس دور کے بہزاد
کھو بيٹھے ہيں مشرق کا سرور ازلي بھي
معلوم ہيں اے مرد ہنر تيرے کمالات
صنعت تجھے آتي ہے پراني بھي ، نئي بھي

فطرت کو دکھايا بھي ہے ، ديکھا بھي ہے تو نے
آئينہ فطرت ميں دکھا اپني خودي بھي


Jalal o Jamal

جلال و جمال



مرے ليے ہے فقط زور حيدري کافي
ترے نصيب فلاطوں کي تيزي ادراک
مري نظر ميں يہي ہے جمال و زيبائي
کہ سر بسجدہ ہيں قوت کے سامنے افلاک
نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثير
نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک

مجھے سزا کے ليے بھي نہيں قبول وہ آگ
کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بے باک


Mirza Baidal

مرزا بيدل



ہے حقيقت يا مري چشم غلط بيں کا فساد
يہ زميں، يہ دشت ، يہ کہسار ، يہ چرخ کبود
کوئي کہتا ہے نہيں ہے ، کوئي کہتاہے کہ ہے
کيا خبر ، ہے يا نہيں ہے تيري دنيا کا وجود!
ميرزا بيدل نے کس خوبي سے کھولي يہ گرہ
اہل حکمت پر بہت مشکل رہي جس کي کشود!
''دل اگر ميداشت وسعت بے نشاں بود ايں چمن
''رنگ مے بيروں نشست از بسکہ مينا تنگ بود


Jiddat

جدت



ديکھے تو زمانے کو اگر اپني نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے
خورشيد کرے کسب ضيا تيرے شرر سے
ظاہر تري تقدير ہو سيمائے قمر سے
دريا متلاطم ہوں تري موج گہر سے
شرمندہ ہو فطرت ترے اعجاز ہنر سے

اغيار کے افکار و تخيل کي گدائي
کيا تجھ کو نہيں اپني خودي تک بھي رسائي؟


Rumi

رومی



غلط نگر ہے تري چشم نيم باز اب تک
ترا وجود ترے واسطے ہے راز اب تک
ترا نياز نہيں آشنائے ناز اب تک
کہ ہے قيام سے خالي تري نماز اب تک

گسستہ تار ہے تيري خودي کا ساز اب تک
کہ تو ہے نغمہ رومي سے بے نياز اب تک


Khaqani

خاقانی



وہ صاحب 'تحفہ العراقين
ارباب نظر کا قرہ العين
ہے پردہ شگاف اس کا ادراک
پردے ہيں تمام چاک در چاک
خاموش ہے عالم معاني
'کہتا نہيں حرف 'لن تراني
پوچھ اس سے يہ خاک داں ہے کيا چيز
ہنگامہ اين و آں ہے کيا چيز
وہ محرم عالم مکافات
اک بات ميں کہہ گيا ہے سو بات

خود بوے چنيں جہاں تواں برد''
''کابليس بماند و بوالبشر مرد


Subah Chaman

صبح چمن



پھول

شايد تو سمجھتي تھي وطن دور ہے ميرا
اے قاصد افلاک! نہيں ، دور نہيں ہے


شبنم

ہوتا ہے مگر محنت پرواز سے روشن
يہ نکتہ کہ گردوں سے زميں دور نہيں ہے


صبح

مانند سحر صحن گلستاں ميں قدم رکھ
آئے تہ پا گوہر شبنم تو نہ ٹوٹے
ہو کوہ و بياباں سے ہم آغوش ، و ليکن
ہاتھوں سے ترے دامن افلاک نہ چھوٹے


Fanoon e Lateefah

فنون لطيفہ



اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے ليکن
جو شے کي حقيقت کو نہ ديکھے ، وہ نظر کيا

مقصود ہنر سوز حيات ابدي ہے
يہ ايک نفس يا دو نفس مثل شرر کيا

جس سے دل دريا متلاطم نہيں ہوتا
اے قطرئہ نيساں وہ صدف کيا ، وہ گہر کيا

شاعر کي نوا ہو کہ مغني کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کيا

بے معجزہ دنيا ميں ابھرتي نہيں قوميں
جو ضرب کليمي نہيں رکھتا وہ ہنر کيا


Makhlookat Hunr

مخلوقات ہنر



ہے يہ فردوس نظر اہل ہنر کي تعمير
فاش ہے چشم تماشا پہ نہاں خانہ ذات
نہ خودي ہے ، نہ جہان سحر و شام کے دور
زندگاني کي حريفانہ کشاکش سے نجات
آہ ، وہ کافر بيچارہ کہ ہيں اس کے صنم
عصر رفتہ کے وہي ٹوٹے ہوئے لات و منات

تو ہے ميت ، يہ ہنر تيرے جنازے کا امام
نظر آئي جسے مرقد کے شبستاں ميں حيات


Iqbal

اقبال



فردوس ميں رومی سے يہ کہتا تھا سنائی
مشرق ميں ابھی تک ہے وہی کاسہ، وہی آش

حلاج کی ليکن يہ روايت ہے کہ آخر
اک مرد قلندر نے کيا راز خودی فاش


Ahraam e Misr

اہرام مصر


س دشت جگر تاب کي خاموش فضا ميں
فطرت نے فقط ريت کے ٹيلے کيے تعمير
اہرام کي عظمت سے نگوں سار ہيں افلاک
کس ہاتھ نے کھينچي ابدےت کي يہ تصوير

فطرت کي غلامي سے کر آزاد ہنر کو
صياد ہيں مردان ہنر مند کہ نخچير


Naseem o Shabnum

نسيم و شبنم

نسيم


انجم کي فضا تک نہ ہوئي ميري رسائي
کرتي رہي ميں پيرہن لالہ و گل چاک
مجبور ہوئي جاتي ہوں ميں ترک وطن پر
بے ذوق ہيں بلبل کي نوا ہائے طرب ناک
دونوں سے کيا ہے تجھے تقدير نے محرم
خاک چمن اچھي کہ سرا پردہ افلاک!


شبنم


کھينچيں نہ اگر تجھ کو چمن کے خس و خاشاک
گلشن بھي ہے اک سر سرا پردہ افلاک


Sarood

سرود



آيا کہاں سے نالہ نے ميں سرود مے
اصل اس کي نے نواز کا دل ہے کہ چوب نے
دل کيا ہے ، اس کي مستي و قوت کہاں سے ہے
کيوں اس کي اک نگاہ الٹتي ہے تخت کے
کيوں اس کي زندگي سے ہے اقوام ميں حيات
کيوں اس کے واردات بدلتے ہيں پے بہ پے
کيا بات ہے کہ صاحب دل کي نگاہ ميں
جچتي نہيں ہے سلطنت روم و شام و رے

جس روز دل کي رمز مغني سمجھ گيا
سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہيں طے


Wajood

وجود



اے کہ ہے زير فلک مثل شرر تيري نمود
کون سمجھائے تجھے کيا ہيں مقامات وجود

گر ہنر ميں نہيں تعمير خودي کا جوہر
وائے صورت گري و شاعري و ناے و سرود

مکتب و مے کدہ جز درس نبودن ندہند
بودن آموز کہ ہم باشي و ہم خواہي بود


Ahal e Hunr Se

اہل ہنر سے



مہر و مہ و مشتري ، چند نفس کا فروغ
عشق سے ہے پائدار تيري خودي کا وجود
تيرے حرم کا ضمير اسود و احمر سے پاک
ننگ ہے تيرے ليے سرخ و سپيد و کبود
تيري خودي کا غياب معرکہ ذکر و فکر
تيري خودي کا حضور عالم شعر و سرود
روح اگر ہے تري رنج غلامي سے زار
تيرے ہنر کا جہاں دير و طواف و سجود

اور اگر باخبر اپني شرافت سے ہو
تيري سپہ انس و جن ، تو ہے امير جنود


Ghazal

غزل



دريا ميں موتي ، اے موج بے باک
ساحل کي سوغات ! خاروخس و خاک

ميرے شرر ميں بجلي کے جوہر
ليکن نيستاں تيرا ہے نم ناک

تيرا زمانہ ، تاثير تيري
ناداں ! نہيں يہ تاثير افلاک

ايسا جنوں بھي ديکھا ہے ميں نے
جس نے سيے ہيں تقدير کے چاک

کامل وہي ہے رندي کے فن ميں
مستي ہے جس کي بے منت تاک

رکھتا ہے اب تک ميخانہ شرق
وہ مے کہ جس سے روشن ہو ادراک

اہل نظر ہيں يورپ سے نوميد
ان امتوں کے باطن نہيں پاک


Nigah e Shoq

نگاہ شوق



يہ کائنات چھپاتي نہيں ضمير اپنا
کہ ذرے ذرے ميں ہے ذوق آشکارائي
کچھ اور ہي نظر آتا ہے کاروبار جہاں
نگاہ شوق اگر ہو شريک بينائي
اسي نگاہ سے محکوم قوم کے فرزند
ہوئے جہاں ميں سزاوار کار فرمائي
اسي نگاہ ميں ہے قاہري و جباري
اسي نگاہ ميں ہے دلبري و رعنائي
اسي نگاہ سے ہر ذرے کو ، جنوں ميرا
سکھا رہا ہے رہ و رسم دشت پيمائي

نگاہ شوق ميسر نہيں اگر تجھ کو
ترا وجود ہے قلب و نظر کي رسوائي


Umeed

اميد



مقابلہ تو زمانے کا خوب کرتا ہوں
اگرچہ ميں نہ سپاہي ہوں نے امير جنود
مجھے خبر نہيں يہ شاعري ہے يا کچھ اور
عطا ہوا ہے مجھے ذکر و فکر و جذب و سرود
جبين بندہ حق ميں نمود ہے جس کي
اسي جلال سے لبريز ہے ضمير وجود
يہ کافري تو نہيں ، کافري سے کم بھي نہيں
کہ مرد حق ہو گرفتار حاضر و موجود

غميں نہ ہو کہ بہت دور ہيں ابھي باقي
نئے ستاروں سے خالي نہيں سپہر کبود
------------------

رياض منزل (دولت کدئہ سرراس مسعود) بھوپال ميں لکھے گئے


Shuaa e Umeed

شعاع اميد



(1)


سورج نے ديا اپني شعاعوں کو يہ پيغام
دنيا ہے عجب چيز ، کبھي صبح کبھي شام
مدت سے تم آوارہ ہو پہنائے فضا ميں
بڑھتي ہي چلي جاتي ہے بے مہري ايام
نے ريت کے ذروں پہ چمکنے ميں ہے راحت
نے مثل صبا طوف گل و لالہ ميں آرام
پھر ميرے تجلي کدہ دل ميں سما جاؤ
چھوڑو چمنستان و بيابان و در و بام


(2)


آفاق کے ہر گوشے سے اٹھتي ہيں شعاعيں
بچھڑے ہوئے خورشيد سے ہوتي ہيں ہم آغوش
اک شور ہے ، مغرب ميں اجالا نہيں ممکن
افرنگ مشينوں کے دھويں سے ہے سيہ پوش
مشرق نہيں گو لذت نظارہ سے محروم
ليکن صفت عالم لاہوت ہے خاموش
پھر ہم کو اسي سينہ روشن ميں چھپا لے
اے مہر جہاں تاب ! نہ کر ہم کو فراموش


(3)


اک شوخ کرن ، شوخ مثال نگہ حور
آرام سے فارغ ، صفت جوہر سيماب
بولي کہ مجھے رخصت تنوير عطا ہو
جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب
چھوڑوں گي نہ ميں ہند کي تاريک فضا کو
جب تک نہ اٹھيں خواب سے مردان گراں خواب
خاور کي اميدوں کا يہي خاک ہے مرکز
اقبال کے اشکوں سے يہي خاک ہے سيراب
چشم مہ و پرويں ہے اسي خاک سے روشن
يہ خاک کہ ہے جس کا خزف ريزہ درناب
اس خاک سے اٹھے ہيں وہ غواص معاني
جن کے ليے ہر بحر پر آشوب ہے پاياب
جس ساز کے نغموں سے حرارت تھي دلوں ميں
محفل کا وہي ساز ہے بيگانہ مضراب
بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن
تقدير کو روتا ہے مسلماں تہ محراب
مشرق سے ہو بيزار ، نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر