علامہ اقبال صرف پاکستان کے نہیں بلکہ دنیا بھر کے فکری رہنما تھے۔ جنھوں نے غفلت میں مبتلا مسلمانوں کو جنھجھوڑ کر ان میں بیداری کی لہر پیدا کی۔ ان کی اصلاحی کوششوں کا دائرہ لامحدود ہے۔
اقبال کے کلام کی آفاقیت کی دنیا معترف و قائل ہے اور اس پر تحقیق کررہی ہے اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کرا کے اپنے لوگوں کو اس سے روشناس کرا رہی ہے۔ لیکن ہم بحیثیت قوم اقبال شناسی کے بجائے اقبال فراموشی کی تاریخی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آج ہماری سیاسی، مذہبی، معاشرتی،معاشی واخلاقی دگرگوں حالت اقبال فراموشی ہی کا نتیجہ ہے جن کے مطابق دانشوروں کی رائے ہے کہ انگریز اقبال کو سمجھ جاتا تو وہ ایک دن بھی قید و فرہنگ سے آزاد نہ رہتے اور اگر مسلمان انھیں سمجھ جاتے تو ایک دن بھی غلام نہ رہتے۔ اقبال کو فراموش کرکے ہم قوم کو بے عملی، بے حسی، بے سمتی اور غفلت و خواب زدگی کی طرف لے جارہے ہیں وہ ایک باعمل سوز جگر اور امت کا درد رکھنے والے مصلح رہبر اور فکری رہنما تھے۔
جن کی فکر آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے ان کے ارشادات ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں ہم اقبال کے فکری وارث و پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے اشعار کو بھی تقریروں، تحریروں، نجی محفلوں اور عام نشستوں میں خوب استعمال کرتے رہے ہیں مثلاً پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانہ سے، وجود زن سے ہے تصویرکائنات میں رنگ، ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی یا ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے لیکن فکر اقبال تو دور کی بات ہے ہم ان شعروں کے دوسرے مصروعوں سے بھی نا آشنا ہیں۔ اقبال فراموشی ایک سنگین قومی غلطی ہے انھیں فراموش اور نظر انداز کرنے کے لیے ایک منصوبے کے تحت ان کی زندگی کے خدوخال اور دین کے ساتھ ان کی مذہبی ، قلبی اور جذباتی وابستگی سے متعلق ابہام اور غلط فہمیاں پیدا کرکے مصیبت زدہ اور درماندہ قوم کو اس مسیحا کی سچائی سے محروم کردیاگیا ہے۔ شاید اقبال کے اسی شعر پر عمل کیا جارہا ہے کہ
اقبال کے نفس سے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو
اقبال نے جرمن فلسفیوں کی فکر سے بھی استفادہ حاصل کیا بعض کی فکر سے متاثر بھی ہوئے لیکن ان کی فکر کی بنیاد کا سب سے بڑا ماخذ قرآن پاک ہے ان کے نزدیک اس سے بڑا صحیفہ فکر و دانش اور رہنمائی کوئی اور نہیں ہے اسی لیے ان کی فکر قرآن مجید سے متاثر تھی وہ مذہب، اقتصادیات ، سیاسیات ، تاریخ و فلسفہ کا گہرا علم اور صحیح ادراک رکھتے تھے۔ تاریخ کی اہمیت سے متعلق ان کا خیال تھا کہ مستقبل کی صحیح تعمیر کرنے کے لیے اپنی تاریخ اور ماضی سے پوری طرح آگاہ ہونا چاہیے۔ انھوں نے اپنے زمانہ تدریس میں تاریخ کا مضمون پڑھانے کا انتخاب بھی شاید اسی سوچ کے تحت کیا ہوگا۔ اقبال کی تحریر کردہ تاریخ ہند متحدہ ہندوستان میں اسکول میں پڑھائی جاتی تھی۔ اقبال کی اسلاف اور اقتدار سے کمزور ہوتے ہوئے رشتے کی تڑپ اس شعر میں محسوس ہوتی ہے۔
گنوادی ہم نے جو میراث اسلاف سے پائی تھی
ہمیں تو زمین پہ آسمان سے ثریا نے دے مارا
اقبال کے نزدیک انسان تاریخ کے آئینے میں خود کو پہچانتا ہے اور اسی کے ربط سے اپنا نصب العین اختیار کرکے اس میں کامیابی و کامرانی حاصل کرتا ہے۔
اقبال مغرب زدہ، روشن خیال، ماڈریٹ طبقہ جس کے نزدیک مغربی تہذیب اور اس کا ہر نظریہ اور طرز عمل سند کی حیثیت رکھتا ہے اور مسلمان کا جامد اور کورانہ تقلید کے حصار میں قید طقبہ دونوں کے ناقد تھے ایسی صورت حال میں اجتہاد کو خطرناک تصور کرتے ہوئے نامور اسلاف کی تقلید کو ہی بہتر سمجھتے تھے۔ مرد مومن ، مرد حر، مرد آہن، مرد مجاہد اور مجاہد کی اذان کے متلاشی اقبال مستی گفتار نہیں بلکہ مستی کردار کے قائل تھے۔ فرماتے ہیں کہ
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار
شاعر کی نوامردہ و افسردہ و بے ذوق
افکار میں سرمست یہ خوابیدہ یہ بیدار
وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار
ان کی شخصیت اور افکار آفاقی حیثیت رکھتے ہیں جس کی جھلک ان کی اس نظم میں نظر آتی ہے۔
خودی کی موت سے مغرب کا اندروں بے نور
خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذام
خودی کی موت سے روئے عرب بے تب و تاب
بدن عراق و عجم کا ہے بے عراق وعظام
خودی کی موت سے ہندی شکستہ بال و پر
قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام
خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور
کہ بیچ کھائے مسلمانوں کے جامہ و احرام
اقبال کے افکار سے عرب، عجم ، ایران،مغرب و یورپ سب کے مفکرین نے حسب مقدور استفادہ حاصل کیا ہے۔ تمام شعرا، ادیب، دانشور، مفکرین اقبال کے معترف اور انھیں خراج تحسین پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ہاورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر این میری شمل کہتی ہیں ’’مذاہب کی تاریخ میں جیسے پیغمبرانہ انداز کا تجربہ کہا جا سکتا ہے۔ اقبال اس کی بہترین مثال ہیں ان کا بار بار مطالعہ کرنے سے مجھ پر ہمیشہ نئی راہیں منکشف ہوئیں۔‘‘ بانی پاکستان قائداعظم فرماتے ہیں کہ ’’اقبال کی لافانی شاعری ہماری فکر کو جلا دینے اور ہماری رہنمائی کرنے کے لیے ہمیشہ موجود رہے گی اقبال اول و آخر مسلمان اور اسلام کے شارح تھے۔ ان کی آواز انسانیت کے لیے پیغام عمل اور خودی کی پہچان تھی میری دعا ہے کہ ہم ان کے تصورات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ اقبال کا کلام ، مضامین ، خطوط، خطابات ہماری سیاست ، معیشت ، معاشرت ، مذہبیت غرض عملی زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی و معاونت کے لیے موجود ہیں ۔
اقبال کے کلام کی آفاقیت کی دنیا معترف و قائل ہے اور اس پر تحقیق کررہی ہے اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کرا کے اپنے لوگوں کو اس سے روشناس کرا رہی ہے۔ لیکن ہم بحیثیت قوم اقبال شناسی کے بجائے اقبال فراموشی کی تاریخی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آج ہماری سیاسی، مذہبی، معاشرتی،معاشی واخلاقی دگرگوں حالت اقبال فراموشی ہی کا نتیجہ ہے جن کے مطابق دانشوروں کی رائے ہے کہ انگریز اقبال کو سمجھ جاتا تو وہ ایک دن بھی قید و فرہنگ سے آزاد نہ رہتے اور اگر مسلمان انھیں سمجھ جاتے تو ایک دن بھی غلام نہ رہتے۔ اقبال کو فراموش کرکے ہم قوم کو بے عملی، بے حسی، بے سمتی اور غفلت و خواب زدگی کی طرف لے جارہے ہیں وہ ایک باعمل سوز جگر اور امت کا درد رکھنے والے مصلح رہبر اور فکری رہنما تھے۔
جن کی فکر آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے ان کے ارشادات ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں ہم اقبال کے فکری وارث و پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے اشعار کو بھی تقریروں، تحریروں، نجی محفلوں اور عام نشستوں میں خوب استعمال کرتے رہے ہیں مثلاً پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانہ سے، وجود زن سے ہے تصویرکائنات میں رنگ، ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی یا ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے لیکن فکر اقبال تو دور کی بات ہے ہم ان شعروں کے دوسرے مصروعوں سے بھی نا آشنا ہیں۔ اقبال فراموشی ایک سنگین قومی غلطی ہے انھیں فراموش اور نظر انداز کرنے کے لیے ایک منصوبے کے تحت ان کی زندگی کے خدوخال اور دین کے ساتھ ان کی مذہبی ، قلبی اور جذباتی وابستگی سے متعلق ابہام اور غلط فہمیاں پیدا کرکے مصیبت زدہ اور درماندہ قوم کو اس مسیحا کی سچائی سے محروم کردیاگیا ہے۔ شاید اقبال کے اسی شعر پر عمل کیا جارہا ہے کہ
اقبال کے نفس سے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو
اقبال نے جرمن فلسفیوں کی فکر سے بھی استفادہ حاصل کیا بعض کی فکر سے متاثر بھی ہوئے لیکن ان کی فکر کی بنیاد کا سب سے بڑا ماخذ قرآن پاک ہے ان کے نزدیک اس سے بڑا صحیفہ فکر و دانش اور رہنمائی کوئی اور نہیں ہے اسی لیے ان کی فکر قرآن مجید سے متاثر تھی وہ مذہب، اقتصادیات ، سیاسیات ، تاریخ و فلسفہ کا گہرا علم اور صحیح ادراک رکھتے تھے۔ تاریخ کی اہمیت سے متعلق ان کا خیال تھا کہ مستقبل کی صحیح تعمیر کرنے کے لیے اپنی تاریخ اور ماضی سے پوری طرح آگاہ ہونا چاہیے۔ انھوں نے اپنے زمانہ تدریس میں تاریخ کا مضمون پڑھانے کا انتخاب بھی شاید اسی سوچ کے تحت کیا ہوگا۔ اقبال کی تحریر کردہ تاریخ ہند متحدہ ہندوستان میں اسکول میں پڑھائی جاتی تھی۔ اقبال کی اسلاف اور اقتدار سے کمزور ہوتے ہوئے رشتے کی تڑپ اس شعر میں محسوس ہوتی ہے۔
گنوادی ہم نے جو میراث اسلاف سے پائی تھی
ہمیں تو زمین پہ آسمان سے ثریا نے دے مارا
اقبال کے نزدیک انسان تاریخ کے آئینے میں خود کو پہچانتا ہے اور اسی کے ربط سے اپنا نصب العین اختیار کرکے اس میں کامیابی و کامرانی حاصل کرتا ہے۔
اقبال مغرب زدہ، روشن خیال، ماڈریٹ طبقہ جس کے نزدیک مغربی تہذیب اور اس کا ہر نظریہ اور طرز عمل سند کی حیثیت رکھتا ہے اور مسلمان کا جامد اور کورانہ تقلید کے حصار میں قید طقبہ دونوں کے ناقد تھے ایسی صورت حال میں اجتہاد کو خطرناک تصور کرتے ہوئے نامور اسلاف کی تقلید کو ہی بہتر سمجھتے تھے۔ مرد مومن ، مرد حر، مرد آہن، مرد مجاہد اور مجاہد کی اذان کے متلاشی اقبال مستی گفتار نہیں بلکہ مستی کردار کے قائل تھے۔ فرماتے ہیں کہ
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار
شاعر کی نوامردہ و افسردہ و بے ذوق
افکار میں سرمست یہ خوابیدہ یہ بیدار
وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار
ان کی شخصیت اور افکار آفاقی حیثیت رکھتے ہیں جس کی جھلک ان کی اس نظم میں نظر آتی ہے۔
خودی کی موت سے مغرب کا اندروں بے نور
خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذام
خودی کی موت سے روئے عرب بے تب و تاب
بدن عراق و عجم کا ہے بے عراق وعظام
خودی کی موت سے ہندی شکستہ بال و پر
قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام
خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور
کہ بیچ کھائے مسلمانوں کے جامہ و احرام
اقبال کے افکار سے عرب، عجم ، ایران،مغرب و یورپ سب کے مفکرین نے حسب مقدور استفادہ حاصل کیا ہے۔ تمام شعرا، ادیب، دانشور، مفکرین اقبال کے معترف اور انھیں خراج تحسین پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ہاورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر این میری شمل کہتی ہیں ’’مذاہب کی تاریخ میں جیسے پیغمبرانہ انداز کا تجربہ کہا جا سکتا ہے۔ اقبال اس کی بہترین مثال ہیں ان کا بار بار مطالعہ کرنے سے مجھ پر ہمیشہ نئی راہیں منکشف ہوئیں۔‘‘ بانی پاکستان قائداعظم فرماتے ہیں کہ ’’اقبال کی لافانی شاعری ہماری فکر کو جلا دینے اور ہماری رہنمائی کرنے کے لیے ہمیشہ موجود رہے گی اقبال اول و آخر مسلمان اور اسلام کے شارح تھے۔ ان کی آواز انسانیت کے لیے پیغام عمل اور خودی کی پہچان تھی میری دعا ہے کہ ہم ان کے تصورات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ اقبال کا کلام ، مضامین ، خطوط، خطابات ہماری سیاست ، معیشت ، معاشرت ، مذہبیت غرض عملی زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی و معاونت کے لیے موجود ہیں ۔
0 comments:
Post a Comment